
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله رب العلمين والصلوة والسلام علی سيد المرسلين وعلی آله واصحابه اجمعين
اسلامی نظام حیات زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہے اللہ تعالی نے ہر شعبہ کی تکمیل نبی کریم ﷺ کے ذریعہ فرمادی ہے، اسی کا ایک اہم شعبہ نزاعات میں قضاء بین المسلمین ایک اہم ترین فریضہ ہے، قضاء بالعدل پرہی امن کا قیام موقوف ہے، کار قضاء بالعدل فقہی وعلمی لحاظ سے انتہائی اہم ہے اور انسانی تاریخ میں بھی عدلیہ کی بالادستی تسلیم کی جاتی رہی ہے، شعبہ قضاء کے لئے ابواب قضاء کی جہاں پوری واقفیت ضروری ہے وہیں عملی تطبیق کے لئے تدریب وتمرین کی بھی ضرورت ہے۔
اسی طرح روز مرہ نت نئے مسائل میں اسلام کی رہنمائی اور مختلف قسم کے سوالات کے جوابات دے کر دفاع عن الاسلام کا فریضہ مفتیان کرام اور علمائے اسلام کا اہم فریضہ ہے۔
اس سلسلہ میں خاص طور پر کار قضاء کی عملی تربیت کا پورے ملک میں کوئی نظام نہیں تھا،چنانچہ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے جب نظام قضاء کو پورے ملک میں عام کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے لئے ایسے افراد کی بھی ضرورت پیش آئی جو اس کام کو بحسن وخوبی انجام دے سکیں گرچہ غیر رسمی طور پر ملک کے مختلف مقامات پر تربیتی کیمپ کا انعقاد اور دارالقضاء ودار الافتاء میں با صلاحیت نوجوان علماء کو رکھ کر انہیں علمی ،نظری وفکری اور عملی تربیت دینے کا نظام عرصہ سے جاری ہے مگر اس وسیع پیمانے پر پورے ملک میں دارالقضاء ودار الافتاء کے قیام کی ضرورت کی تکمیل اس کے ذریعہ ممکن نہیں تھی، اس لئے اسی ضرورت کے پیش نظر حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ جنہیں اللہ تعالی نے اپنے دین کی خاص بصیرت عطا فرمائی تھی اور جن کو قضاء وافتاء ہی نہیں بلکہ دین اسلام کے مختلف شعبوں میں اسلام ومسلمانوں کی خدمات کے لئے چن لیا تھا اور پیش آمدہ مسائل کے حل کے لئے افراد سازی سے لیکرمعاشرتی وسماجی اصلاح کا بڑے پیمانے پر جن سے کام لیا،وہ خود امارت شرعیہ کے قاضی القضاۃ تھے اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈجیسی ہندوستانی مسلمانوں کی متفقہ تنظیم کے صدر تھے، ازیں قبل انہوں نے جدید مسائل پر غور وفکر کرنے اور ان کا حل نکالنے کے لئے علماء کی ایک جماعت تیار کی اور اس کے لئے ایک ادارہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے نام سے قائم فرمایا،اسی طرح انہوں نے مسلمانوں کے ملی وسماجی کام کے لئے ‘‘ملی کونسل’’ کی بھی بنیاد ڈالی، تاحیات وہ اس کے جنرل سکریٹری رہے، اس کے علاوہ بہت سے اداروں کے سرپرست و صدر اورذمہ دار تھے۔ چنانچہ انہوں نے شوال 1418ھ مطابق فروری 1998ء میں امارت شرعیہ بہار اڑیسہ وجھارکھنڈ کی زیر نگرانی امیر شریعت حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب دامت برکاتہم کی سرپرستی میں افتاء وقضاء دونوں کی بیک وقت تربیت کے لئے یہ ادارہ المعهد العالی للتدريب فی القضاء والإفتاء کے نام سے قائم فرمایا۔
حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمہ اللہ المعہد کے تاحیات صدر رہے، انہوں نے المعہد کی بنا کا مقصد اور اس کی ضرورت واہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے المعہد العالی کے پہلے تعارف نامہ میں یہ تحریر فرمائی : ‘‘امارت شرعیہ بہار ، اڑیسہ وجھارکھنڈ اپنے قیام کے اول یوم سے اپنے بانی حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجادؒ کی فکری بصیرت کے نتیجہ میں مختلف شعبہ ہائے حیات میں کام کی صلاحیت رکھنے والے افراد اور صحیح جذبہ کے ساتھ امت کے اجتماعی وجود کو صحیح خطوط پر قائم رکھنے کی جدوجہد کرنے والے رجال کار کی تربیت وتیاری کاکام کرتی رہی ہے مختلف ایسے کام اور ایسے میدان کار جو اسلام کے نظام اجتماعی کے مفقود ہوجانے کی وجہ سے ایک مٹی ہوئی سنت اور نامانوس شعبے بن گئے تھے، امت میں ان کو متعارف کرانے اور ان کے لئے باصلاحیت افراد کے تیار کرنے کا کام امارت شرعیہ نے کیا۔ امارت شرعیہ کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان میں حکومت اسلامی کے زوال کے بعد نظام قضاء وقاضی کا جب دھندلا تصور بھی ختم ہوچکا تھا امارت نے اس کو دوبارہ جاری کیا، عشر جو اسلام کی اہم ترین مالی عبادت تھی وہ سما ج سے اس طرح مٹ چکی تھی کہ اس کا نام بھی کہیں نہیں سنا جاتا تھا، نیز زکوۃ کی اجتماعی ادائیگی اور خرچ کا تصور بھی ختم ہوچکا تھا امارت نے اس کو دوبارہ جاری کیا، عہد نبوی کے قائم کردہ نظام نقابت کو نئے سرے سے قائم کیا اور اس کے ذریعہ امت کو امیر کے ساتھ جوڑنے اور ملت کی شیرازہ بندی کا نظام وجود میں آیا۔
پھر جب امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانی علیہ الرحمۃ کا دور آیا تو اللہ تعالی شانہ نے ان کے ذریعہ مولانا سجادؒ کی چھوڑی ہوئی اس وراثت یعنی افراد سازی وامت کی شیرازہ بندی کا کام کامل واتم طریقہ پر لیا۔ وہ نوجوان نسل کو ہاتھ میں لیتے، ان کی ذہنی نشوونما اور اخلاقی تربیت کرتے ، اور انہیں علمی وفکری ارتقا کی منزلوں سے گذار کر رجال کار بناتے، امارت شرعیہ کے نظام قضا کی توسیع اور اس کے لئے باصلاحیت قضاۃ کی تربیت کا کام حضرت امیر شریعت رابع نے اپنے پہلے فرمان کے ذریعہ کیا، چنانچہ ان کے امیر منتخب ہونے کے بعد ان کی ہدایت ونگرانی میں تربیت قضا کے دوہفتوں کا کیمپ لگا، اس کے بعد مسلسل کیمپ لگتے رہے اور تربیت کاکام ہوتار ہا۔قضاء کی طرح فتوی نویسی کا کام بھی انہوں نے اپنی نگرانی میں علماء سے محنت کے ساتھ کرایا۔ وہ نوجوان علماء ، مدرسین،اور اساتذہ فقہ وحدیث سے جدید پیش آمدہ مسائل حل کراتے اور ان کو اس کے لئے تیار کرتے۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی تعمیری جدوجہد کی بقا اور اس کے استحکام کے لئے تسلسل ضروری ہے، ماضی حال اور مستقبل کا مضبوط رشتہ استوار ہونا اہم ہے اس لئے اگر مستقبل میں آنے والی نسلیں اپنے بزرگوں کے کام کی صحیح وارث نہ ہوں تو وہ کام رک جاتاہے۔ آیت قرآنی‘‘وآخرين منهم لما يلحقوا بهم’’میں کچھ ایسے لوگوں کا تذکرہ کیا گیاہے جو ابھی تمہارے کارواں میں شریک نہیں لیکن آئندہ وہ کارواں کے ساتھ جڑیں گے اور نبی ﷺکے لائے ہوئے علوم واعمال کی وراثت میں حصہ دار ہوں گے، اور بلا شبہ یہ بڑا فضل ہے۔‘‘ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء
خود جناب رسول اللہ ﷺ نے صحابہ ؓ کو مختلف میدان عمل میں کام کرنے کی تربیت دی ، سیدناعمر فاروق ؓ نے جس طرح حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ جیسے نوجوان کی صلاحیت پر خاص نظر رکھی، ان کی تربیت کی اور ہمت افزائی فرمائی وہ اس کی بہترین نظیر ہے، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی سیرت کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے نئی نسل کے علماء کو بحث ومناظرہ اور مباحثہ علمیہ کے مناقشہ اور استنباط احکام کی مشق وتمرین کے ذریعہ اس طرح تیار کیا کہ ان میں سے ہر ایک آسمان علم وفقہ کا آفتاب وماہتاب بن کر چمکا۔
غرض یہ کہ سلف کی وراثت خلف کی طرف منتقل کرنا وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے، آج جو قحط الرجال نظرآتاہے، اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ بزرگ گذرتے گئے اور نئی نسل میں ان کی وراثت منتقل نہیں ہوئی، نتیجہ یہ ہے کہ ہر میدان میں ایسا خلا پیدا ہوا کہ اس کا پر ہونا مشکل ہے، اور شاید علم اور فضل وکمال سینوں سے سلب نہیں کئے جاتے ہیں بلکہ اہل علم اور اصحاب فضل وکمال کے اپنی وراثت منتقل کئے بغیر گذرجانے سے علم وفضل کا انحطاط ہوتاہے۔ اس کی طرف خود جناب رسول اللہ ﷺ نے ‘‘ولکن یقبض العلم بقبض العلماء ’’ میں اشارہ فرمایاہے۔
بہر حال اس دور کا ایک اہم ترین کام یہ ہے کہ جدید نسل کے ہونہار نوجوانوں کو تربیت دے کر حال اور ماضی کے اصحاب فضل وکمال کا وارث بنایاجائے۔ یہ وہ فکر ہے جو اول یوم سے ہم لوگوں کے سامنے رہی ہے، اولا غیر رسمی طورپر ملک کے مختلف مقامات پر تربیتی کیمپ کا انعقاد اور دوسرے دارالقضاء اور دارالافتاء میں نوجوان باصلاحیت فضلاء کو رکھ کر انہیں علمی ، نظری وفکری اور عملی تربیت دینے کا نظام عرصہ سے جاری ہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ یہی تصور‘‘المعهد العالی للتدريب فی القضاء والافتاء (پھلواری شریف،پٹنہ)’’کی تاسیس کا باعث بنا، اس کا مقصد فقہ کے بحر ناپیداکنار کی شناوری، اصول استنباط، قواعد وضوابط فقہیہ، مقاصد شریعت، مناہج استنباط اور اصول ترجیح اور جدید حالات میں احکام شرعیہ کی تطبیق نیز جدید نظامہائے قانون اور اسلامی قانون کا تقابلی مطالعہ ہے ، تاکہ ہمارے فضلاء اس عہد کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے اہل ہوں اور عہد حاضر کے سوالات حل کرنے کے لائق ہوسکیں۔
المعہد میں داخل ہونے والے فضلاء کی دوسالہ تعلیم کے دوران نہ صرف یہ کہ انہیں جدید مسائل کی تخریج اور پیش آمدہ مسائل کے حل وفتوی نویسی کی تربیت دی جاتی ہے بلکہ مختلف علمی، فقہی موضوعات پرتحقیق بھی کرائی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی اسلام کے عدالتی نظام کے عملی طریقوں سے واقفیت کرانے کے ساتھ ساتھ قضاء کے مختلف مسائل کی نظری تعلیم اور عملی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ امارت شرعیہ کا نظام قضاء انتہائی مربوط ومنظم اور وسیع بنیادوں پر قائم ہے جہاں روزانہ نئے مقدمات کی سماعت اور فیصلے ہوتے ہیں، اور اس کے پاس شرعی فیصلوں کا 80؍سالہ عظیم الشان فقہی ذخیرہ بھی محفوظ ہے جس سے یہ فضلاء فائدہ اٹھاتے ہیں، اس طرح یہ کہنا حق بجانب ہے کہ فقہ اسلامی میں تخصص اور قضاء وافتاء پر عبور حاصل کرنے کے لئے امارت شرعیہ صحیح ترین جگہ ہے اور امید کی جاتی ہے کہ یہاں سے تربیت پاکر نکلنے والے علماء سے پورے ملک میں قانون شریعت کے تحفظ اور عائلی نزاعات کے حل کے لئے قائم ہونے والے ‘‘دارالقضاء’’کی ایک اہم ضرورت پوری ہوگی اور امور قضاء کو انجام دینے کے لائق ہوں گے۔ ساتھ ہی ملک کے مختلف دارالافتاء میں فتوی کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں گے اور مدارس میں بہترین اساتذہ کی شکل میں خدمت بھی انجام دیں گے۔ اور قانون اسلامی کو ایک زندہ قانون کی حیثیت میں آج کے حالات میں پیش کرنے کے لائق ہوں گے، ان کی نظر مدارج احکام پر ہوگی اور وہ جدید سائنس وٹکنالوجی کی موجودہ ترقی اور معاشرتی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھتے ہوئے شریعت کی تطبیق کے اہل ہو سکیں گے۔
اللہ علیم وخبیر سے دعاء کرتاہوں کہ وہ اس معہد کو اس کے صالح تعمیری مفید اور دوررس اثر رکھنے والے مقاصد کے حصول میں کامیابی عطا فرمائے۔ اور زیر تربیت فضلاء تعلیم دینے والے اساتذہ ، ملک کے وہ ممتاز علماء جن کے علم وفکر سے معہد مستفیض ہو ایاوہ اہل خیر جن کے تعاون سے معہد ترقی کی منزلیں طے کرے گا، اللہ ان سب کو اخلاص عطا فرمائے اور ان کے حسن عمل پر اجر جزیل دے۔ اور اس کارواں کے ایک کمزور رفیق کی حیثیت سے اس حقیر کو بھی اس کی برکتوں سے مستفید فرمائے۔ آمین’’(مجاہد الاسلام قاسمی)
چنانچہ اس معہد کا تعلیمی آغازامارت شرعیہ کے جماعت خانہ سے کردیا گیاپھر عارضی طور پرحضرت مولانا بدرالحسن قاسمی صاحب مدظلہ کا مکان جوالمعہد کی عمارت سے متصل مغربی سمت میں واقع ہے حاصل کیا گیا اور اس میں تعلیم کا نظام جاری رہا تاآنکہ المعہد کی مستقل عمارت بن کر تیار ہوگئی ۔
اللہ تعالی ہم سب کو اس امانت کی حفاظت، اس کی ترقی واستحکام اور اس کو اپنے مقاصد کی تکمیل میں لگائے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کے لئے اسے ذخیرۂ آخرت اور دین ودنیا کی برکتوں کے حصول کا ذریعہ بنائے۔وما ذلـك علی الله بعزيز
17/جمادی الأخری ۱۴۳4ھ29/اپریل2013ء |
عبد الباسط ندوی
سکریٹری
المعہد العالی
اغراض ومقاصد
- المعہد العالی کے قیام کا مقصد فقہ اسلامی کے قواعد وضوابط کی روشنی میں احکام شرعیہ کی تطبیق اور قوانین اسلامی وجدید نظام ہائے قانون کا تقابلی مطالعہ ہے۔
- اس کے ذریعہ شریعت اسلامی کی حفاظت وترویج کے لئے ایسے رجال کار کی تیاری مقصود ہے جو علم وعمل اور فکر ونظر میں اسلاف کے صحیح جانشین اوروارث ہوں۔
- مدارس اسلامیہ کے فضلاء کو افتاء وقضاء کی ایسی نظری وعملی تربیت کہ ان میں جدید مسائل کے حل کی صلاحیت پیدا ہو اور وہ سائنس وٹکنالوجی کے موجودہ ترقی اورمعاشرتی تبدیلیوں پر نظر رکھتے ہوئے شریعت اسلامی کی تطبیق کے اہل ہوسکیں۔
- قانون شریعت کے تحفظ اور عائلی نزاعات کے حل کے لئے قائم ہونے والے دارالقضاء ودارالافتاء کی ذمہ داریاں نبھانے والے ایسے رجال کارکی تربیت جوقانون اسلامی کو ایک زندہ قانون کی حیثیت سے آج کے حالات میں پیش کرنے کے لائق ہوں۔
- مختلف علمی،فقہی وسماجی موضوعات پرتحقیقات وسروے نیزسمینار، سمپوزیم اور محاضرات کا انعقاد
خصوصیات
- المعہد العالی میں ایسے ہی نوجوان علماء کا داخلہ لیاجاتاہے جو کسی معروف ومستند دینی درسگاہ کے فاضل اور اچھے نمبرات سے کامیاب ہوں ۔داخلہ کے لئے باضابطہ مقابلہ جاتی امتحان ہوتاہے اور امتحان میں کامیابی کے بعد ہی داخلہ لیا جاتاہے ۔ المعہد کا نصاب تعلیم دو سالہ ہے اس لئے داخل ہونے والوں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ دوسال رہ کر اس کی تکمیل کریں۔
- اس میں باقاعدہ پچاس نوجوان علماء کی تربیت کا انتظام ہے ۔سال اول میں 25؍اور سال دوم میں 25۔
- جن علماء کا داخلہ ہوتاہے انہیں قیام وطعام کی سہولت ادارہ کی طرف سےدی جاتی ہے اور اس کے علاوہ ماہانہ بطور وظیفہ نقد روپے بھی دیئے جاتے ہیں ۔
- اس معہد میں فقہ،اصول فقہ،قواعد فقہ ،مقاصد شرع ،مذاہب فقہیہ کا مطالعہ، آیات احکام اور احادیث نبویہ پر خصوصی نظر اور آداب قضاء وافتاء کی عملی مشق کرائی جاتی ہے۔اس کے علاوہ انگریزی ،ہندی اور کمپیوٹر کی بھی بقدر ضرورت تعلیم دی جاتی ہے۔
- نوجوان علماء میں فقہی ذوق پیدا کرنے کے لئے فقہی سمینار منعقد کئے جاتے ہیں۔جس میں وہ مقالات لکھ کر پیش کرتے ہیں اور اس پر مناقشہ کے بعد تجاویز مرتب کرتے ہیں۔
- المعہدالعالی کی طرف سے علوم اسلامی ،آداب قضاء وافتاء ،مقاصد شریعت اور جدید علوم پر علماء وماہرین فن کے محاضرات کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے ۔
- مختلف نوع کے علمی وفقہی موضوعات پر سال دوم کے نوجوان علماء سے مقالات لکھائے جاتے ہیں اور مقالات جمع کرنے کے بعد ہی افتاء اور قضاء کی سند دی جاتی ہے بشرطیکہ سالانہ امتحان میں کامیاب ہوں۔
- اس ادارہ میں ملک کے مستند ومعروف دینی درسگاہ کے فضلاء جو ملک کے مختلف صوبوں سے آئے ہوئے ہوتے ہیں تربیت افتاء وقضاء حاصل کرتے ہیں چنانچہ صوبہ بہار اڑیسہ وجھارکھنڈ کے علاوہ یوپی، گجرات، مہاراشٹرا، کشمیر،ا ٓسام، بنگال، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ،آندھرا پردیش اور نیپال وغیرہ کے اب تک … نوجوان علماء یہاں سےتربیت حاصل کرچکے ہیں۔ جو ہند وبیرون ہند مختلف مقامات پر افتاء وقضاء ،درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ کے فرائض بہتر طریقے پر انجام دے رہے ہیں۔
- المعہدالعالی میں ۷؍ماہر فن اساتذہ ،ایک دفتر انچارج ،دوباورچی، ایک چپراسی،ایک حارس اور ایک سویپر اپنی خدمت انجام دے رہے ہیں جن کی کل تعداد تیرہ(13)ہے۔ان کے علاوہ امارت شرعیہ کے قضاۃ ومفتیان کرام بھی نوجوان علماء کی تربیت افتاء وقضاء کی خدمات انجام دیتے ہیں۔
- یہ ادارہ ،امارت شرعیہ کی نگرانی میں کام کرتاہے ،لیکن چونکہ اس کے اخراجات مستقل ہیں اس لئے اس کے حساب وکتاب کا نظام بیت المال امارت شرعیہ سے الگ رکھا گیا ہے اور اس کے لئے باقاعدہ ’’المعہدٹرسٹ ‘‘ کے نام سے ایک ٹرسٹ قائم ہے جس کے زیر انتظام یہ ادارہ کام کر رہا ہے۔اور اہل خیرکے تعاون سے اس کے تمام اخراجات پورے کئے جاتے ہیں۔
کتب خانہ
علمی اورتحقیقی کام کرنے کے لئے ایک کتب خانہ ہے جہاں تفسیر ، حدیث، فقہ، اصول فقہ، قواعد الفقہ،سیرت وسوانح اورفن رجال وغیرہ کے مراجع ومصادر ، ادب عربی واردو اور دیگر فنون کی ایک معتد بہ تعداد میں کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے، ان کے علاوہ کمپیوٹر بھی ہے جس میں سی ڈی کے ذریعہ المکتبۃ الشاملہ اور دیگر مکتبات کی ہزاروں کتابوں سے طلبہ استفادہ کرتے ہیں۔ چنانچہ تعلیمی اوقات کے علاوہ مغرب تا عشاء اور عشاء کے بعد دوگھنٹے کتب خانہ کھلارکھنے کا اہتمام کیا جاتاہے۔
کتب خانہ میں امارت شرعیہ، اسلامک فقہ اکیڈمی اورمسلم پرسنل لاء بورڈ کے نام سے الگ الگ گوشے بھی قائم کئے گئے ہیں جن میں ان اداروں کی مطبوعات ومتعلقات کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ تحقیق وریسرچ کرنے والوں کے لئے آسانی ہو۔
المعہد العالی کی عمارت
المعہد العالی کی اپنی عالیشان تین منزلہ عمارت ہے نیچے کی منزل میں درسگاہ، دفتر، اساتذہ کے بیٹھنے کا کمرہ، کمپیوٹر لیب ، مہمان خانہ اورقاعۃ المحاضرات ( لیکچر ہال )ہے، جس میں مختلف موضوعات پر علماء وماہرین فن کے ذریعہ طلبہ کے درمیان محاضرات کا اہتمام کیا جاتا ہے، اس کے بعد والی منزل پر طلبہ کا دارالاقامہ ہے جس میں آٹھ کمرے ہیں، ان کے علاوہ ایک کمرہ نگراں دارالاقامہ کے لئے ہے، اسی منزل پر متصلا مطبخ بھی ہے جہاں سے طلبہ کا کھانا وناشتہ تیار کرکے ملازم ان کے کمروں تک پہنچا دیا کرتا ہے، کھانے کے بعد برتن وغیرہ لاکر صفائی کرنے اور اسے مطبخ میں حفاظت سے رکھنے کی ذمہ داری بھی ملازم ہی کی ہے ، اس کے اوپر دوسری منزل پر ایک بڑا کانفرنس ہال ہے، ہال میں باقاعدہ اسٹیج بناہوا ہے اور اسٹیج سے متصل ایک آرام دہ کمرہ بھی ہے، اس ہال میں بعض بڑے بڑے سیمینار وکانفرنس ہوچکے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں چنانچہ فقہ اکیڈمی کا دوسرا سیمینار، رابطہ ادب اسلامی کا سیمینار اسی طرح سعودیہ وکویت وغیرہ سے آئے ہوئے مہمانوں کے اعزاز میں بڑے بڑے جلسہ ہوچکے ہیں، ہال سے متصل دو چھوٹے کمرے بھی ہیں، ہال کا ایک حصہ دومنزلہ ہے جسے بالکنی کہتے ہیں فی الحال کتب خانہ اسی بالکنی میں ہے،اسی سے متصل ایک کمرہ قسم البحث والتحقیق کے نام سے ہے جس میں بیٹھ کر اساتذہ فی الحال طلبہ کے سندی مقالات پر نظر ثانی کا کام کرتے ہیں۔
اس عمارت کا افتتاح مورخہ 19/ذی الحجہ 1419ھ مطابق 17/اپریل 1999ء کو شام کے مشہور فقیہ وعالم دین ڈاکٹر وھبہ مصطفی زحیلی رئیس قسم الفقہ الاسلامی ومذاھبہ جامعہ دمشق کے ہاتھوں عمل میں آیا،اس موقع پر پاکستان کے مشہور عالم دین وفقیہ اوروہاں کے محکمہ شرعیہ علیا کے سابق چیف قاضی حضرت مولانا محمد تقی عثمانی، دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتمم اور اپنے وقت کے ممتاز عالم دین حضرت مولانا محمد سالم قاسمی، امیر شریعت حضرت مولانا سید نظام الدین، حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ اور ان کے علاوہ ملک وبیرون ملک کے ممتاز علماء موجود تھے،جب کہ اس عمارت کی سنگ بنیاد کے موقع پر وزارۃ الاوقاف کویت کا ایک موقر وفد موجود تھا جس میں وزارۃ الاوقاف کے وکیل جناب ڈاکٹر عادل عبداللہ الفلاح اور الامانۃ العامۃ للاوقاف کے سابق جنرل سیکریٹری سید عبدالمحسن محمد العثمان موجود تھےاور انہیں کے ہاتھوں 22/ذیقعدہ 1417ھ مطابق یکم اپریل 1997ء میں اس عمارت کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
نظام کار
المعہد العالی امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ وجھارکھنڈ کی نگرانی میں المعہدٹرسٹ رجسٹرڈ نمبر 3048/1999کے زیر انتظام کام کر رہاہے۔
اس کی دو مجالس ہیں:-
۱ المعہد ٹرسٹ
۲ مجلس منتظمہ
المعہد ٹرسٹ:-
یہ سب سے زیادہ بااختیار مجلس ہے ، المعہد العالی کی ترقی واستحکام اور جملہ منصوبہ کے سلسلہ میں اس کا فیصلہ اہم اور حتمی ہوتاہے۔اس کے ممبران ملک کے ممتاز اور اہم شخصیتیں ہیں۔
مجلس منتظمہ:-
یہ مجلس المعہد کے جملہ امور کی نگرانی کرتی ہے اور المعہد ٹرسٹ کے ذریعہ لئے گئے فیصلوں کے نفاذ پر نظر رکھتی ہے۔اس مجلس کے ارکان المعہدٹرسٹ کے ارکان میں سے ہی منتخب شدہ افرادہوتے ہیں۔
المعہد العالی میں داخلہ:-
المعہد العالی میں ایسے نوجوان فضلاء کا داخلہ لیا جاتا ہے جو کسی معروف مستند دینی درسگاہ کے فاضل ہوں اور اچھے نمبرات سے کامیا ب ہوئے ہوں۔ جنہیں فقہ ومصادر شرعیہ سے خاص مناسبت ہو ۔ داخلہ کے لئے باضابطہ درخواست رمضان اور شوال کے پہلے عشرہ میں لی جاتی ہے۔ جس کے ساتھ اسناد اور رہائشی سرٹیفیکیٹ کی فوٹو کاپی بھی طلب کی جاتی ہے۔ اس کے بعد تحریری وتقریری امتحان لیا جاتاہے۔ اس امتحان کی تاریخ کا اعلان شعبان کے شروع ہی میں کر دیاجاتاہے۔ اس امتحان میں کامیابی کے بعد ہی المعہد میں داخلہ دیا جاتاہے۔ داخلہ کے بعد طلبہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ دوسال رہ کر اس کی تکمیل کریں۔
چونکہ المعہد العالی میں صرف 50؍طلبہ کی تربیت کا نظم ہے اور اس کا نصاب دوسالہ ہے۔اس لئے سال اول میں صرف25؍ہی طلبہ کا داخلہ منظورکیا جاتاہے۔
امتحانات:-
المعہد العالی میں پڑھنے والے طلبہ کے ہر سال دوامتحانات ہوتے ہیں:-ششماہی اور سالانہ۔ششماہی امتحان عام طور پرربیع الاول کے پہلے عشرہ میں اور سالانہ امتحان عام طور پر شعبان کے دوسرے عشرہ میں ہوتاہے۔ سال دوم میں ترقی کے لئے سال اول کے سالانہ امتحان میں تمام کتابوںمیں کامیاب ہوناضروری ہے۔
المعہد العالی کی سند:-
سال اول کے سالانہ امتحان میں کامیابی کے بعد سال دوم میں داخلہ دیا جاتاہے اور سال دوم میں کامیاب ہونے والے فضلاء کو قضاء وافتاء میں ‘‘شهادة التخصص فی القضاء والافتاء’’كی سند دی جاتی ہے۔
نصاب تعلیم
فقہ اسلامی کی بنیاد کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ ہے۔ یہ وہ مآخذہیں جو محفوظ اور مستند ہاتھوں سے ہم تک پہنچے ہیں، فقہائے امت نے انہیں مآخذ میں غور وتعمق اور ان سے مسائل واحکام کا استنباط کرکے زندگی کا ایک مکمل نظام مرتب کیا ہے، جو انسانی زندگی کے تمام گوشوں کو محیط ایک جامع ترین قانون ہے، عبادات ومعاملات، معاشرہ، سماجی زندگی، اقتصادیات، سیاست ونظام حکومت، جرم وسزا اور بین الاقوامی تعلقات، غرض فرد، سماج، قوم اور مختلف اقسام کے باہمی ارتباط سے متعلق تمام ہی مسائل کا احاطہ اس میں موجود ہے، اور عقل ومصلحت سے مطابقت، فطرت انسانی سے ہم آہنگی، انسان کی حقیقی ضرورت وحاجت کی رعایت، سماج کی نت نئی تبدیلیوں میں رہبری کی صلاحیت اس کا سب سے بڑا امتیاز ہے۔
اس لئے فقہ اسلامی کو علوم اسلامی میں ایک خاص شان واہمیت حاصل ہے اور مکمل طور پر انسانی زندگی سے مربوط ومتعلق ہے، اس فن میں غواصی اور دستگاہ کے بغیر ہر عہد کے نئے مسائل کا ایسا حل تلاش کرناجو کتاب وسنت کے منشاء کو بھی پورا کرتا ہو اور متوازن اور انسانی ضروریات سے ہم آہنگ بھی ہو اور زندگی کے مسائل کے بارے میں صحیح رہنمائی ہو،ممکن نہیں، فقہ اسلامی کے ذریعہ مسلمانوں کی رہنمائی کے دو شعبے ہیں ‘‘افتاء وقضاء’’۔
افتاء قانون اسلامی کی تشریح وتوضیح سے عبارت ہے اور قضاء پیش آمدہ واقعات کی تحقیق اور اس کے بعد اس پر احکام شریعت کی تطبیق کا نام ہے، اسی لئے یہ دونوں کام بہت ضروری بھی ہیں اور نازک بھی ، اور ہر دور میں ان دونوں موضوعات کو فقہاء اور اصحاب علم ونظر کی توجہ خاص حاصل رہی ہے۔
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ قضاء وافتاء کی تربیت کاکام بہتر اور منظم طور پر انجام پائے، اور یہ تربیت صرف مقدمات کی عملی کارروائی، چند فتاوی کے جوابات اور ایک دوکتابوں کی تدریس تک محدود نہ رہے بلکہ پوری گہرائی کے ساتھ فقہ اسلامی اور اس سے متعلق ضروری فنون کا مطالعہ کرایاجائے، بحث وتحقیق کا ذوق پیدا کیا جائے، اہم مراجع کی طرف طلبہ کی رہنمائی ہو، فقہی نقطہ نظر سے احکام شریعت کے اساسی مصادر کتاب وسنت کا مطالعہ کریں، ان کے اندر علمی وتحقیقی موضوعات پر قلم اٹھانے کا سلیقہ آئے، ادب قضاء اور اصول افتاء پر اہم اور مستند کتابیں بھی ان کو پڑھائی جائیں، اور ان کاموں کی عملی تربیت بھی ہو، اس مقصد کے لئے‘‘المعہد العالی للتدریب فی القضاء والإفتاء ’’ کا یہ نصاب مقرر کیا گیاہے۔
- اصول فقہ کی حیثیت فقہ کے لئے کلید کی ہے، جب تک اس پر نگاہ نہ ہو مسائل واحکام کے استنباط میں صحیح سمت اختیار نہیں کی جاسکتی، اس کو خصوصی اہمیت دیتے ہوئے فقہ حنفی کی قدیم اصولی کتاب اور مختلف مکاتب فقہ کے اصول پر ماضی قریب کے اصحاب علم وفن کی بعض کتابیں داخل نصاب کی گئیں ہیں۔
- قواعد فقہ جس کو ہندوستان کے دینی مدارس کے مروجہ نصاب میں وہ اہمیت نہیں دی گئی ہے جو اس کا حق ہے حالانکہ یہ نہایت اہمیت کے حامل ہیں اور براہ راست کتاب وسنت سے ماخوذ ہیں، یہ شریعت کی کلیات اور دین کے مزاج ومذاق کی مظہر ہیں، فقہی جزئیات کا بہت بڑا حصہ اجتہاد واستنباط پر مبنی ہے، جن میں تغیر احوال کی وجہ سے تبدیلی ہوسکتی ہے، لیکن یہ قواعد مستقل اور دائمی اصول ہیں، قواعد فقہ کی اس اہمیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس فن کو نصاب میں خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور متعدد کتابیں اس موضوع پر درس ومطالعہ کے لئے رکھی گئی ہیں، جن میں متقدمین کی کتابیں بھی ہیں اور متاخرین کی بھی اور ماضی قریب کے اہل علم کی بھی۔
- کسی بھی قانون کے صحیح ادراک کے لئے ضروری ہے کہ اس کے مقاصد واہداف نگاہ میں ہوں، اس سے بے خبری اور ناآگہی کبھی اباحیت کا راستہ کھول دیتی ہے، اور کبھی بے جا تشدد اور عسر کی طرف لے جاتی ہے، مقاصد واسرار شریعت سے واقفیت کے بعد جو شخص اخلاص کے ساتھ احکام شرعیہ میں غور کرے گا وہ ان شاء اللہ افراط وتفریط سے محفوظ رہے گا، اس لئے اس فن کو بھی نصاب میں مستقل موضوع کی حیثیت سے جگہ دی گئی ہے۔
- مختلف مذاہب فقہیہ کا مطالعہ بھی اس نصاب کا اہم حصہ ہے تاکہ طلبہ تمام فقہی ابواب میں اجتماعی اور اختلافی مسائل سے واقف ہو سکیں، اور جان سکیں کہ کون سے مسائل محل غور وفکر بن سکتے ہیں اور کون سے مسائل وہ ہیں جن میں اجتہاد کی گنجائش نہیں، پھر یہ بھی کوشش کی گئی ہے کہ مذاہب اربعہ کو ان کے فقہی مراجع سے پڑھا جائے تاکہ مختلف مذاہب کی صحیح آراء اور ان کی تفصیلات پر نگاہ ہوجائے ، اس میں یہ بات بھی ملحوظ ہے کہ مختلف مذاہب فقہیہ کا مطالعہ نہ صرف معلومات میں بلکہ قلب ونظر میں بھی وسعت پیدا کرتاہے۔
- نصاب میں یہ بھی ملحوظ ہے کہ چونکہ کتاب وسنت ہی احکام شریعت کے مصادر اساسی ہیں اس لئے آیات احکام اور احادیث احکام پر اہم کتابیں بھی طلبہ کی نظر سے گذر جائیں۔
- ‘‘احوال شخصیہ’’فقہ اسلامی کا نہایت اہم شعبہ ہے اور مسلم مملکت ہو یا مسلمان اقلیت میں ہوں، بہر صورت وہ سماجی زندگی میں احکام شریعت کے مکلف ہیں، اسلام کا قانون معاشرت فطرت انسانی سے حددرجہ ہم آہنگ ہے، آج دنیا کا کوئی قانون نہیں جس نے اس سے خوشہ چینی نہیں کی ہو، لیکن بدقسمتی سے آج مغرب کے اہل علم نے قانون اسلامی کے اسی شعبہ کو ہدف تنقید بنایاہے، اسی پس منظر میں ’’احوال شخصیہ‘‘ کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔
- ان کتابوں اور تحریروں پر نگاہ ضروری ہے جو عصر حاضر کے جدید پیدا شدہ مسائل کے حل کے لئے لکھی گئی ہیں ، گذشتہ ادوار میں بھی ایسی تحریریں اہل علم کے لئے مرکز توجہ رہی ہیں جو ’’نوازل‘‘کہلاتی ہیں، ہمارے عہد میں مختلف فقہ اکیڈمیوں نے اس پر قابل لحاظ کام کیاہے، اور اس کی ابحاث طبع ہوچکی ہیں، انہیں بھی داخل نصاب کیا گیاہے تاکہ پوری وسعت کے ساتھ ایک مسئلہ پر مختلف نقاط نظر طلبہ کے سامنے آسکیں۔
- برصغیر ہندوپاک میں غالب اکثریت احناف کی ہے اس لئے ان ملکوں میں فریضہ قضاء وافتاء انجام دینے کے لئے فقہ حنفی پر عمیق ووسیع نظر ضروری ہے، پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ معاملات اور احوال شخصیہ میں فقہ حنفی اس زمانہ کے تقاضوں سے قریب تر ہے اس لئے فقہ حنفی سے معاملات اور احوال شخصیہ کے اہم ابواب سبقا سبقا داخل نصاب ہیں۔
- ادب قاضی ایک وسیع الاطراف موضوع ہے اور اس پر ایک مکمل کتب خانہ وجود میں آچکاہے، معہد میں اس موضوع کی نہایت اہم اور مستند کتابیں درس ومطالعہ کے لئے منتخب کی گئی ہیں، قانون شہادت، احکام قضاء کا نہایت اہم حصہ ہے جس پر واقعات کے ثبوت کا مدار ہے، اور دور جدید میں مروج‘‘قانون شہادت’’اسلام سے بہت کچھ مختلف ہے، اس لئے اسلام کے قانون شہادت اور آج کے مروج مغربی قانون شہادت کے تقابلی مطالعہ کو بھی شامل نصاب کیا گیاہے۔
- قضاء وافتاء کے کام میں صرف درس ومطالعہ کافی نہیں، عملی مشق اور تجربہ ضروری ہے، امارت شرعیہ کا دارالقضاء پورے ملک میں نظام قضاء کا بڑا مرکز ہے، جہاں ہر سال مختلف نوعیت کے سیکڑوں مقدمات آتے ہیں، روزانہ سماعت ہوتی ہے اور فیصلے ہوتے ہیں، نیز امارت کا دارالافتاء ملک کے ان دوتین دارالافتاء میں ہے جہاں سب سے زیادہ ملک کے مختلف علاقو ںسے اور مختلف نوع کے سوالات آتے ہیں، اس سے استفادہ کرتے ہوئے عملی تدریب کے لئے بھی خاصا وقت دیاگیاہے۔
سندی مقالات
سال دوم کی تکمیل پر کسی اہم فقہی عنوان پر موضوع کا احاطہ کرتے ہوئے کم از کم سو صفحات پرمشتمل ایک مقالہ لکھنا یا کسی مخطوطہ پر تحقیقی کام کرنا ضروری ہے۔چنانچہ اب تک مختلف فقہی عنوانات پر 249/مقالات لکھے جاچکے ہیں جن پر نظر ثانی وتصحیح کا کام جاری ہے، اسی طرح فتاوی ہندیہ کے مراجع ومصادر کی تحقیق کا کام مکمل ہوچکا ہے جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے جب کہ ردالمحتار علی الدرالمختار کے مراجع ومصادر کی تحقیق کا کام جاری ہے، ان شاء اللہ اس علمی ذخیرہ کوحسب سہولت منظر عام پر لانے کی کوشش کی جائے گی۔جن عناونین پر مقالات اب تک لکھے جاچکے ہیں ان میں سے چند عناوین درج ذیل ہیں:-
* بیع الوفاء کے احکام * اسلام میں سود کے احکام * فقہ اسلامی کی تاریخ
* أحكام المرضى * أحكام المرأة فی الشريعۃ الإسلاميۃ * الحدود فی ضوء النقل والعقل * أحكام الإجارة فی الإسلام * الخيارات فی العقود والمعاملات * أحكام التداوی بالمحرمات * أحكام الاستصناع والعقود الجديدة.
نصابی کتابیں
(سال اول)
گھنٹے : کل7/ہر گھنٹہ 45/منٹ
اصول فقہ: علم اصول الفقہ ہفتہ میں تین دن
تاریخ فقہ : المدخل الفقہی العالم للزرقاء(تاریخ کا حصہ) ہفتہ میں ایک دن
قواعد الفقہ: الاشباہ والنظائر ہفتہ میں پانچ دن
فقہ حنفی : الدرالمختار روزانہ مزید دو دن
اصول افتاء: شرح عقود رسم المفتی(ابن عابدین) ہفتہ میں دودن
ادب المفتی والمستفتی(ابن صلاح) مطالعہ
فرائض : سراجی ہفتہ میں دو دن
ادب قضاء: معین الحکام للطرابلسی روزانہ
فقہ القرآن: آیات احکام
فقہ الحدیث: منتخب احادیث از قبیل معاملات ہفتہ میں تین دن
انگریزی : زبان وگرامر ہفتہ میں پانچ دن
ہندی : زبان ہفتہ میں ایک دن
عملی تربیت: افتاء: ایک سو پچاس استفتاء کے جوابات کی عملی مشق روزانہ بعد نماز ظہر
قضاء: ابتدائی کارروائیوں کی عملی مشق روزانہ بعد نماز ظہر
مذاہب اربعہ کا مطالعہ : مندرجہ ذیل کتابوں کا امتحان ششماہی امتحان کے ساتھ ہوگا
متن الغایۃ والتقریب فی الفقہ الشافعی (کتاب النکاح تا ختم فصل فی الحضانۃ)
مختصر الطحاوی فی الفقہ الحنفی (کتاب المفقود تا ختم کتاب القسمۃ)
(کتاب الکراہیۃ تا آخر کتاب)
مسئلہ امارت اور ہندوستان (مکمل)
مندرجہ ذیل کتابوں کا امتحان سالانہ امتحان کے ساتھ ہوگا
الروض المربع فی الفقہ الحنبلی (باب المساقاۃ تا قبل کتاب الوصایا)
رسالہ ابو زید القیروانی فی الفقہ المالکی (باب فی الصیام تا ختم باب فی الضحایا والذبائح)
اسلامی عدالت ( مکمل)
مطالعہ کی دیگر کتابیں : ۱؍تاریخ فقہ اسلامی ۲؍ایک امت ایک جماعت
سمینار : کسی خاص فقہی موضوع پر مرتب سوال نامہ طلبہ کو دیا جاتا ہے۔ وہ اس پرحوالوں کے ساتھ تحقیقی مقالہ تحریر کرتے ہیں۔ اساتذہ کی تصحیح کے بعد اس کا سمینار منعقد ہوتاہے جس میں طلبہ مقالہ پڑھتے ہیں اور بحث میں حصہ لیتے ہیں۔ آخر میں تجویز مرتب کرتے ہیں۔سال اول میں کم ازکم دوسمینار لازمی ہیں۔
(سال دوم)
اصول فقہ: اصول البزدوی(اجماع وقیاس ،اسباب وعلل و شروط کی بحث)ہفتہ میں تین دن
قواعدفقہ : کتاب الفروق للقرافی منتخب ابواب ہفتہ میں ایک دن
قواعد الاحکام لعزالدین بن عبد السلام(منتخب ابواب) ہفتہ میں دو دن
اختتام ذی الحجہ تک روزانہ |
اصول الکرخی
تاسیس النظر
احوال شخصیۃ: الاحوال الشخصیۃ لابی زھرہ محرم سے روزانہ
مقاصدشرع: حجۃ اللہ البالغہ منتخب ابواب روزانہ
انگریزی : زبان وگرامر ہفتہ میں چار دن
ہندی : زبان ہفتہ میں دو دن
کمپیوٹر :Windwo,Office, Adobe Package,Corel, Inpage, Internet روزانہ
عملی تربیت : افتاء : ایک سو پچاس استفتاء کے جوابات کی مشق روزانہ
قضاء : احکام رپورٹ، سماعت، فیصلہ وغیرہ لکھنے کی عملی مشق روزانہ
کتب مطالعہ : مندرجہ ذیل کتابوں کا امتحان ششماہی امتحان کے ساتھ ہوگا
بدایۃ المجتہدجلد اول وثانی (کتاب الصلاۃ تا الباب التاسع فی سجود القرآن مکمل
کتاب البیوع تا کتاب بیع العریۃ مکمل)
الحیلۃ الناجزۃ (مکمل)
مندرجہ ذیل کتابوں کا امتحان سالانہ امتحان کےساتھ ہوگا
فقہ المعاملات المالیۃلدکتور رفیق یونس مصری (مقدمہ: مکمل(ص۱تا۵) البا ب الثانی: المال والملک والعقد(ص37 تا60)
الباب الخامس:أہم المحرمات، الباب السادس: المعاوضات،
الباب السابع : المداینات(ص109تا۲۲۲)
الباب العاشر:المعاملات الحدیثۃ(ص267 تا321)
مجموعہ قوانین اسلامی (مکمل)
دیگر کتب مطالعہ : ۱؍آداب قضاء ۲؍کتاب الفسخ والتفریق ۳؍رہنمائے قاضی
سمینار : کسی خاص فقہی موضوع پر مرتب سوال نامہ طلبہ کو دیا جاتا ہے۔ وہ اس پرحوالوں کے ساتھ تحقیقی مقالہ تحریر کرتے ہیں۔ اساتذہ کی تصحیح کے بعد اس کا سمینار منعقد ہوتاہے جس میں طلبہ مقالہ پڑھتے ہیں اور بحث میں حصہ لیتے ہیں۔ آخر میں تجویز مرتب کرتے ہیں۔سال دوم میں کم ازکم ایک سمینار لازمی ہے۔
سندی مقالہ: سال دوم کی تکمیل پر کسی اہم فقہی عنوان پر موضوع کا احاطہ کرتے ہوئے کم از کم سو صفحات پر مشتمل ایک مقالہ لکھنا یا کسی مخطوطہ پر تحقیقی کام کرنا ضروری ہے۔
نوٹ: دیواری پرچے: دونوں درجوں کے لئے لازم ہے کہ ہر دوماہ پراپنے درجہ کی طرف سے ایک اردو اور ایک عربی میں جداری پرچے مرتب کرکے آویزاں کریں۔
بزم سجاد : طلبہ کے اندر تقریری صلاحیت پیدا کرنے کے لئے بزم سجادکے نام سے ایک انجمن قائم ہے ۔اس کا پروگرام ہر ہفتہ شب جمعہ بعد نماز مغرب منعقد ہوتا ہے۔طلبہ عربی واردوزبان میں تقریروں کی مشق کرتے ہیں ۔
محاضرات
المعہد العالی کے نصاب میں محاضرات کا پروگرام بھی شامل ہے۔اس کے لئے ہند و بیرون ہند کے ممتاز اہل علم وتحقیق اور ماہرین فن کو کو دعوت دی جاتی ہے ۔وہ مختلف موضوعات پر محاضرات تیار کر کے طلبہ کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ان کے اس علمی مواد سے طلبہ واساتذہ کو استفادہ کا موقع ملتا ہے۔اب تک جن حضرات کے مختلف عناوین پر محاضرات سے استفادہ کا موقع ملا ہے ان میں سے بعض کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:-
اسمائے محاضرین | موضوع | تعداد |
حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ بانی وسابق صدرالمعہد العالی سابق قاضی القضاۃ امارت شرعیہ پھلواری شریف،پٹنہ بانی وسابق جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا سابق صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سابق رکن اسلامک فقہ اکیڈمی جدہ (العضو الخبیر) بانی وسابق جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل | – اصول فقہ – قواعد فقہ | ۱ 2 |
حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی سابق چیف جسٹس، پاکستان نائب صدر اسلامک فقہ اکیڈمی، جدہ نائب صدر دارالعلوم کراچی ،پاکستان | غیر سودی بینکاری | 1 |
جناب ڈاکٹر محمد رواس قلعہ جی خبیر موسوعہ فقہیہ وزارۃ الاوقاف والشؤون الاسلامیہ أستاذ كليۃ الشريعہ کویت یونیورسیٹی | -تحقیق مخطوطہ کے اصول – آپ مقالہ کیسے لکھیں؟ | 1 1 |
جناب ڈاکٹر محمد محروس مدرس أعظمی حنفی استاذ علوم شرعیہ ، مدرسہ قضائیہ دینیہ، بغداد، عراق | – اجتہاد، طریقۂ اجتہاد اور نئے مسائل حل کرنے کے ضابطے – ادب قضاء – ادب افتاء ،شرائط وضوابط -آیت مداینہ اور اس سے ستنبط احکام | 2 1 1 1 |
جناب ڈاکٹر نورالدين خادمی استاذكليۃ الشريعہ, جامعۃ الإمام محمد بن سعود ،رياض | مقاصد شریعت | 1 |
جناب ڈاکٹر جاسرعوده مديرمركزدراسات مقاصد الشريعۃ الإسلاميۃ مؤسسۃ الفرقان للتراث الإسلامی- ويمبلدون-لندن، یوکے | مقاصد شریعت | 6 |
جناب ڈاکٹرعمر حسن كاسولے جامعہ برونائ | فقہ الطب | ۳ |
حضرت مولانا ثمير الدين قاسمی استاذ حديث جامعہ اسلاميہ, مانجستر, لندن | – فلكيات – فقہ حنفی احادیث کی روشنی میں | 2 2 |
حضرت مولاناقاضی محمد قاسم مظفر پوری قاضی شریعت مرکزی دارالقضاء امارت شرعیہ،پٹنہ نائب صدر المعہد العالی | قضاء طریقہ کار شرائط وآداب | سالانہ 7/ محاضرے |
حضرت مولانا مفتی سعيد احمد پالن پوری استاذحديث وافتاءدارالعلوم ديوبند | مصادر شریعت | 1 |
حضرت مولانا محمد زكريا سنبھلی استاذحديث دارالعلوم ندوة العلماء ، لکھنؤ | – علم حديث اور اس کا سند ومتن کے اعتبار سے تنقیدی جائزہ – فقہی احکام اور اس کے بیان کرنے کا طریقہ – علماء کی حیثیت اور ان کی ذمہ داریاں | 1 1 1 |
حضرت مولانا نذر الحفيظ ندوی صدر شعبہ عربی دارالعلوم ندوة العلماء لكھنؤ | – میڈیا اور اس کے اثرات – میڈیا کے مسائل کا مقابلہ کیسے کریں۔ | 2 1 |
حضرت مولانا خالد سيف الله رحمانی بانی وناظم المعهد العالی الإسلامی حيدرآباد جنرل سکریٹری اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ | -نقد حدیث میں احناف کا اصول -تخریج حدیث اوراس کا طریقہ کار – اختصاص کی ضرورت اور عہد صحابہ میں اس کی مثالیں -جدید مسائل کا حل کیسے کریں؟ -مقالہ لکھنے اور مخطوطہ کی تحقیق کا طریقہ -اسلامی بینک کی ضرورت واہمیت | 1 2 2 1 1 5 |
حضرت مولانامحمد اسلام قاسمی استاذحديث دارالعلوم (وقف)ديوبند | – حدیث اور علم حدیث کی تعریف – حجیت حدیث اور تدوين حديث | 1 1 |
حضرت مولاناعتيق احمد قاسمی استاذ فقہ وحديث دارالعلوم ندوة العلماء، لکھنؤ سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا | -عرف وعادت – فقہاء کے طبقات – فتوی نویسی ؛ اصول وطریقہ کار – علم اصول فقہ کی اہمیت اور تاریخ تدوین | 2 2 1 1 |
حضرت مولانا مفتی عبيد الله اسعدی استاذحديث وفقہ جامعہ عربیہ ,ہتورا، باندہ, یوپی سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا | – ضرورت وحاجت – حجيت آثار صحابہ رضی الله عنہم – جدید فقہی مسائل – اصحاب الرائ واصحاب الحديث کے درمیان فرق – اہل حق کے فقہی وکلامی مذاہب – جدید مسائل کے حل کے اصول | 1 1 1 1 1 1 |
پروفیسر ڈاکٹرمحسن عثمانی ندوی سابق صدر شعبہ عربی افلو، حيدرآباد | عالم اسلام کے سیاسی حالات | 1 |
حضرت مولاناسيد سلمان حسینی ندوی استاذ حديث دارالعلوم ندوة العلماء لكھنؤ | – دور جدید میں نئے مسائل کے حل کے طریقہ کار اور اس کے لئے مطلوبہ صلاحیت – مختلف موضوعات پر چند خطاب | 1 |
حضرت مولانا قاضی جسیم الدين رحمانی قاضی شریعت مرکزی دارالقضاء امارت شرعیہ | قضاء ؛ طریقہ کار | 1 |
حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی ناظم امارت شرعیہ | – مذاہب ہند میں اخلاقی تعلیمات – فتوی کے مسائل اور ان کا حل | 1 1 |
حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدى قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ | – افتاء ؛ آداب واصول – عہد جدید میں شہادت کے اسلامی اصول وضوابط – منصب افتاء وقضاء ؛ شرائط اہلیت | 2 1 1 |
حضرت مولانا مفتی محمد جنيد عالم ندوی قاسمی صدر مفتی دارالافتاء امارت شرعیہ | مشینی ذبیحہ | 1 |
حضرت مولانا محمد بركت الله قاسمی استاذ فقہ وحدیث کلیۃ ابراہیم لندن یوکے | -اسلامی بینکنگ – کریڈٹ کارڈ -شیئر مارکیٹنگ | 1 1 1 |
حضرت مفتی محمد مصطفى عبد القدوس ندوی استاذالمعہد العالی الاسلامی حیدرآباد | – روزہ کے نئے مسائل اور اس کے حل کا طریقہ – تخریج احادیث کے اصول وضوابط -اصول فقہ کی اہم کتابیں اور اس کی خصوصیات | 1 1 1 |
حضرت مولاناعطاء الرحمن قاسمی چیرمین شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی | شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کے افکار | 1 |
جناب ڈاکٹر مظفر عالم افلو یونیورسیٹی حيدرآباد | عراق پر امریکی حملے اور مشرق وسطی میں امریکی مصالح | 1 |
جناب ڈاکٹر اوصاف احمد ماہر اقتصادیات سابق اکسپرٹ رکن برائے البنك الإسلامی للتنميہ جدہ | – علم معاشیات ؛ تعارف مقاصد اور طریقہ کار – معاشیات اور جدید مالی نظام – ہندوستان میں اسلامی مالیاتی مسائل – اسلامی مالیاتی مسائل اور مسلم اقلیت کا کردار – اسلام میں نمو کی اہمیت اور کسب مال کی ضرورت – بینکوں کی عصری بنیاد | 1 1 1 1 1 1 |
جناب انعام الدین داؤدی صاحب ریٹائرڈ شیشن جج حکومت بہار | ہندوستانی قانون اور اسلامی قانون ایک موازنہ | 3 |
جناب جاويد اقبال ایڈوکیٹ ہائی کورٹ پٹنہ | سرکاری قانون ایک جائزہ | 1 |
جناب ڈاکٹر قاسم رسول الياس ایڈیٹر مجلہ “افكار ملی”دہلی | عصرحاضر میں صحافت کی اہمیت | 1 |
اصلاحی وتربیتی خطاب
* حضرت مولانا عبد الله عباس ندوی پروفیسر جامعہ ام القری مکہ مکرمہ،سابق معتمد تعلیم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
* حضرت مولانا سیدمحمد رابع حسنی ندوی ناظم ندوة العلماء لكھنؤ،صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ
* حضرت مولاناسيد نظام الدين امیر شریعت بہار ،اڑیسہ وجھارکھنڈ، جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ
سرپرست اعلی المعہد العالی
* حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی نائب امیر شریعت بہار، اڑیسہ وجھارکھنڈ،سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ
* حضرت ڈاکٹر وہبہ مصطفى زحيلی رئيس قسم الفقہ الإسلامی ومذاہبہ جامعة دمشق سوريا
* حضرت مولانا محمد سالم قاسمی مہتمم دارالعلوم (وقف)ديوبند
* حضرت مولانا سيد ارشد مدنی استاذ حديث دارالعلوم ديوبند،صدر جمعيۃ علماءہند
*حضرت مولانا مفتی ظفير الدين مفتاحیؒ سابق مفتی دارالعلوم ديوبند
* حضرت مولانا سعيد الرحمن اعظمی ندوی مہتمم ندوة العلماء لكھنؤ،ایڈیٹر مجلہ “البعث الإسلامی”
* حضرت مولانا واضح رشيد ندوی ناظم تعلیمات دارالعلوم ندوة العلماء لكھنؤ
*حضرت مولانا ڈاکٹرسيد سلمان ندوی سابق پروفیسر وصدر شعبہ اسلامک اسٹڈیز وڈین فکلٹی آف آرٹ ڈربن یونیورسیٹی جنوبی افریقہ
* حضرت مولانا بدر الحسن قاسمی صدر المعہد العالی للتدريب فی القضاء والإفتاء
رئيس مركز المعلومات وزارة الأوقاف والشئون الإسلاميہ كويت
عضو المجلس التنفيذی للملتقى العالمی لعلماء المسلمين برابطۃ العالم الإسلامی مکہ مکرمہ
* حضرت مولانا محمد حشيم عثمانی مدرسہ صولتیہ مكہ مكرمہ
* حضرت مولانا مفتی محمد اشرف علی باقوی امیر شریعت کرناٹک،ناظم جامعۃ الرشاد بنگلور
* حضرت مولانا قاری محمد عثمان منصورپوری استاذ حديث دارالعلوم ديوبند
* حضرت مولانا محمد برہان الدين سنبھلی صدر شعبہ تفسیر دارالعلوم ندوة العلماء لكھنؤ
* حضرت مولانا محمد عيسى منصوری چیرمین ورلڈ اسلامك فورم لندن, یوکے
* حضرت مولانا محمد شاهد الأمين العام مظاہر علوم سہارنپور
* حضرت مولانا احمد نصر بنارسی ناظم مدرسہ امدادیہ وخانقاہ امدادیہ بنارس
* جناب محمد رياض موسى مليباری ملیبار، كيرالہ
* جناب محمد سلمان احمد صدیقی منیجنگ ڈائرکٹر بن فارس کمپنی دبئی,یو اےای
* جناب مولانا نذر توحید صاحب مہتمم مدرسہ رشید العلوم چترا،جھارکھنڈ وقاضی شریعت
* جناب مولانا شاه فياض عالم ولی اللہی کٹیہار، بہار، الہند
* جناب ڈاکٹر محمد أحمد عبد العزيز الخضيری مدير معهد المسجد النبوي الشريف سعودیہ عربیہ
* جناب ڈاکٹرعبد المجيد سليمان الرويلی استاذ تفسیر معہد المسجد النبوي شريف
* جناب عبد الله احمد عبد العزيز الخضيری مدینہ منورہ سعودیہ عربیہ
* پروفیسرڈاکٹر عبدالباری سابق صدر شعبہ عربی مسلم یونیورسیٹی علی گڑھ
* جناب ڈاکٹر کلیم احمد عاجز رکن شوری جماعت تبلیغ صوبہ بہار، چیرمین اردو اکیڈمی بہار
* جناب مولانا ذوالفقار احمد صاحب جماعت تبلیغ چترا، جھارکھنڈ
* جناب حافظ محمد یحیی صاحب انکلیشور گجرات
* جناب مولانا شاہ عالم گورکھ پوری استاذ دارالعلوم دیوبند
* جناب مولانا جمیل صدیقی (نمائندہ دعوت اسلامی) ادارہ دارالقرآن سدھارتھ نگر
* جناب مولانا عبدالباری ندوی مہتمم جامعہ اسلامیہ بھٹکل
* جناب مولانا اقبال ملا ندوی قاضی بھٹکل
* جناب مولانا محمدالیاس ندوی بھٹکلی مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل
* جناب مولانا محمد عتیق صاحب مظاہری شیخ الحدیث جامع الہدی مرادآباد
* جناب مولانا ارتقاء الحسن کاندھلوی مفتی اعظم پنجاب
معہد میں تشریف لانے والی اہم شخصیات
* جناب خيار عمر جزائر * جناب سهيل محمد الجلاہمہ مديرادارة المخطوطات والمكتبات الإسلاميہ وزارة الأوقاف والشئون الإسلاميہ، كويت * جناب ماہر فہد ساير ؒ رئيس بحث القسم والتصنيف ادارة المخطوطات والمكتبات الإسلاميہ, وزارة الأوقاف والشئون الإسلاميہ كويت * جناب ناصر الملا وزارۃ الاوقاف والشؤن الاسلامیہ کویت * جناب خالد بدر جمعيۃ الشيخ عبدالله نوری الخيريہ، كويت * جناب حسام عبدالرحمن ہاشمیقطر * جناب سالم علی الغامدی مكہ مكرمہ
* جناب منور حسين امام بالهم مسجد لندن * جناب ضياء الحق دارالعلوم عربيہ اسلاميہ برطانیہ,یو کے * جناب سليم محمد افريقی جنوبی افریقہ * جناب مولانا منیر الدین استاذ دارالعلوم دیوبند * جناب مولانا محمد خالد صدیقی جنرل سکریٹری جمعیت علماء نیپال * جناب قاری اسماعیل بسم اللہ مہتمم جامعۃ القراءات کفلیتہ سورت گجرات * جناب مولانا مفتی عباس شیخ الحدیث جامعۃ القراءات کفلیتہ سورت ،گجرات * جناب مولانا محمد خالد ندوی غازیپوری استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ * جناب مولانا عبد الوھاب خلجی سابق ناظم عمومی مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند * جناب مولانا بشیر احمد شاہ مہتمم مدرسہ بیت العلوم کشمیر *جناب اعجاز احمد اسلم معاون قیم جماعت اسلامی ہند * جناب مولانا مفتی مظفر عالم سرپرست المدرسۃ العالیۃ للعلوم الإسلامیۃممبئی * جناب مولانا محمد ثمین اشرف قاسمی مقیم دبئی * جناب مولانا محمد شاہد ناصری حنفی سب ایڈیٹرماہنامہ حج میگزین ممبئی * جناب مولانا امیر عالم قاسمی امام وخطیب عرب مسجد مدن پورہ ممبئی * جناب مولانا قاری معین الدین قاسمی صدر جمعیۃ العلما بہار،مہتمم مدرسہ قاسمیہ اسلامیہ گیا۔
المعہد العالی اہل علم ونظر کی نگاہ میں
حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم
ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ وصدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ
امارت شرعیہ کے مرکز میں میری حالیہ حاضری کے موقع پر المعہد العالی برائے تربیت افتاء وقضاء کے ادارہ کو مزید قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔ …معتمد جامعات اسلامیہ کے فارغین کو اس میں تربیت واستفادہ کا موقع دیا جاتاہے۔ یہ ایسا اہم علمی دینی اور عملی کام ہے جو اس ملک کے مسلمانوں کو شریعت اسلامی کے تحت ان کی شرعی ضرورتوں کو انجام دینے کے لئے از بس ضروری ہے۔…اس کا دوسالہ نصاب ہے اور فی الوقت 50 فارغ التحصیل طلبہ زیرتعلیم وتربیت ہیں۔ کئی برسوں سے یہ ادارہ کام کررہاہے اور اس کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔(۹؍ربیع الثانی1428ھ)
حضرت مولانا محمد سالم قاسمی دامت برکاتہم
مہتمم دارالعلوم (وقف)دیوبند
معہد اپنی انفرادی حیثیت میں جس عظیم واہم خدمت کو انجام دے رہاہے اس کو بلا خوف تردید کہا جاسکتاہے کہ وہ نہ صرف زمانہ کی مزاج شناسی پر مبنی ہے بلکہ ہر دور میں یہ مزاج شناسی ملت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ اس معہد میں فضلاء مدارس داخل کئے جاتے ہیں جنہیں افتاء وقضاء دونوں میں ایک بصیرت عطا کی جاتی ہے۔(29؍مئی2004ء)
حضرت مولانا قاری محمد عثمان منصور پوری مدظلہ العالی
نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند
یہ امر باعث مسرت ہے کہ ٹھوس انداز میں ان فضلاء کو افتاء و قضاء کی تربیت دی جاتی ہے۔ اسی طرح ہر سال ۵۲؍قابل اعتماد مفتی وقاضی تیار ہوجاتے ہیں جو حسب توفیق ملک وبیرون ملک میں افتاء وقضاء کی عظیم خدمت انجام دیتے ہیں خداوند کریم اس سلسلہ کو مزید استحکام اور ترقی عطا فرمائے۔(20؍محرم1427ھ)
حضرت مولانا محمد برہان الدین سنبھلی مد ظلہ العالی
صدر شعبہ تفسیر دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
یہ ادارہ ہندوستان بھر میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے جس میں مدارس عربیہ کے فضلاء کو افتاء وقضاء کی تربیت دی جاتی ہے جو بہت اہم کام ہے۔(۴؍مارچ 2003ء)
حضرت مولانا واضح رشید ندوی مد ظلہ العالی
معتمد تعلیم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
… المعہد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء کے نظام سے واقفیت اساتذہ اور طلبہ سے ملاقات کا موقع ملا۔یہ ادارہ ہندوستان میں منفرد ادارہ ہے جو نظام قضاء اور تعلیم افتاء وفقہ کے لئے مخصوص ہے حضرت مولانا نظام صاحب کی امارت میں اس ادارہ نے مزید ترقی کی ہے… یہاں طلبہ کے قلم سے لکھے ہوئے جداری پرچے جو عربی اور اردو میں تھے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ ان میں صحافت اور تحریر ی صلاحیت پیدا کرنے کے لئے بھی تربیت دی جاتی ہے۔…چند سال قبل بھی یہاں آنے کا موقع ملاتھا مگر اس مدت میں ادارہ نے ترقی کی ہے اور اس کا نظام اور وسیع ہوگیاہے۔(23؍دسمبر2010ء)
حضرت مولانا محمد زکریا صاحب مدظلہ العالی
استاذ حدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
آج مورخہ 11/جون 2010ء کو المعہد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء میں پہلی بار حاضری ہوئی، اللہ کے جن نیک ومخلص اور بامقصد حضرات نے اس کی بنیاد رکھی اور اپنے خون وپسینے سے اس کی آبیاری کی ان نیات ومحنتوں کا ثمرہ سامنے کھلی آنکھوں سے نظر آرہا ہے۔
حضرت مولاناسید سلمان حسینی ندوی مد ظلہ العالی
استاذحدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
اس معہد میں دو سالہ نصاب ہے ہرسال تقریبا 25؍فارغین مدارس لئے جاتے ہیں اور ان کی علمی وعملی بہترین تربیت کی جاتی ہے ،میرا احساس ہے کہ ملک میں اس ادارہ کا خاص اعتبار ہے اور اس کی خدمات لائق تبریک وستائش ہیں۔(10؍۷؍2010ء)
حضرت مولانا مفتی محمد ظفیر الدین مفتاحی رحمہ اللہ
سابق مفتی دارالعلوم دیوبندوصدر اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
بارہا یہاں آتا رہا ہوںیہاں کہ طلبہ واساتذہ سے ملتا رہا ہوں اس دفعہ بھی معہد کے مؤقر اساتذہ وطلبہ سے ملا قات ہوئی اور کچھ بات چیت کا موقع ملا اور قلبی اطمینا ن حاصل ہوا کہ جو درخت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ نے لگا یاتھا وہ زیادہ اور اچھا پھل دے رہاہے۔(۷؍۴؍2009ء)
حضرت مولانا مفتی عبید اللہ اسعدی صاحب مدظلہ العالی
استاذ حدیث وفقہ جامعہ عربیہ ہتورا، باندہ وسکریٹری اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا
المعہد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء پھلواری شریف، پٹنہ آج ملکی پیمانہ پر ایک معروف ومتعارف بافیض وفعال ادارہ ہے، … بحمد اللہ تعالی معہد کی علمی وعملی جدوجہد سے شروع سے واقفیت، دلچسپی اور اپنی صلاحیت کے مطابق شرکت کی سعادت حاصل ہے۔اس ادارہ سے امت مسلمہ ہندیہ کی ایک بڑی ضرورت جو دن بدن اشد سے اشد تر ہورہی ہے، اس کی تکمیل ہورہی ہے، بحمد اللہ نصاب، نظام، کارکنان، قاضی صاحب علیہ الرحمہ اور پھر امارت شرعیہ اور حضرت امیر شریعت کی سربراہی وسرکردگی ان سب نے اس ادارہ کو فارغین مدارس کے حق میں بڑا قابل قدر اور مفید ونافع بنادیا ہے، آج ملک کے مختلف علاقوں میں قائم ہونے والے دارالقضاء کو اسی ادارہ سے بالخصوص باصلاحیت قضاۃ فراہم ہورہے ہیں۔ (27/10/1430ھ)
پروفیسر مولانا محسن عثمانی ندوی مد ظلہ العالی
سابق صدر شعبہ عربی انگلش اینڈ فارن لنگویجزیونیورسیٹی حیدرآباد
ہندوستان اسلامی ملک نہیں،یہاں مسلمان بہت سے مسائل کا شکا رہیں اور پریشانیوں میں گرفتار ہیں لیکن ان سب کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں نے ایسے اہم اور عظیم الشان ادارے قائم کردیئے ہیں جن کی مثال آسانی کے ساتھ اسلامی ملکوں بھی نہیں ملتی، انہیں اداروں میں یہ ادارہ بھی ہے جس کا نام المعہد العالی للتدریب فی القضاء والإفتاء ہے،قاضی مجاہد الاسلام صاحب ؒ نے جو پود ا لگایاتھا وہ اب تناور درخت بن گیا ہے …بہترین کتب خانہ ، تدریس وتدریب کا بہتر انتظام، ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے طالب علم، بااخلا ق وصاحب استعداد معلم ،قضاء اور افتاء کی اعلی تعلیم، یہ سب دیکھ کر محسوس ہوا کہ یہ امت ابھی بھی جینے کا سلیقہ اور زندگی کا استحقاق رکھتی ہے۔(23؍ستمبر 2011ء)
حضرت مولانا محمد شاہد صاحب مدظلہ العالی
امین عام مظاہر علوم سہارنپور
آج 18/ذی الحجہ 1432ھ میں پہلی مرتبہ المعہد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء پھلواری شریف میں حاضری ہوئی، الحمد للہ ارباب انتظام کو نظم وانتظام میں اساتذہ کو درس وتدریس میں اور طلبا کو تعلیم وتعلم میں مشغول پایا، کتب خانہ بھی دیکھا، اللہ جل شانہ بے حد برکت عطا فرمائے، ہر طرح کی فلاح وخیر سے مالامال فرمائے آمین
حضرت مولانا سید سلمان ندوی مد ظلہ العالی ابن علامہ سید سلیمان ندویؒ
سابق پروفیسر وصدر شعبہ اسلامک اسٹڈیز وڈین فکلٹی آف آرٹ ڈربن یونیورسیٹی جنوبی افریقہ
آج 24/ نومبر 2011ء المعہد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی، الحمد للہ اس ادارہ کے قائم کرنے والوں نے عصری مسائل کے حل کے لئے جن طلبا کا انتخاب کیا ہے ان سے توقع ہے کہ اپنے علم میں اضافہ کے ساتھ اپنے قلب کا محاسبہ کریں گے تاکہ ہدایت کی راہ بھی ہموار ہو۔
حضرت مولانا محمد اشرف علی باقوی صاحب مدظلہ العالی
امیر شریعت کرناٹک،ناظم دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور
بتوفیق الہی آج المعہد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء میں حاضری کا شرف حاصل ہوا … نہایت مسرت ہوئی کہ ادارہ نہایت مرتب ومنظم ہے، صفائی کا بھی بہترین اہتمام ہے، پھر عزیز طلبہ سے ملنے اور ان سے کچھ عرض کرنے کا بھی موقع دیا یہ معہد حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمہ اللہ کا قائم فرمودہ ہے اور قاضی صاحب کے عزائم اور حوصلوں کے مطابق ترقی کی راہ پر گامزن ہے اللہ تعالی مزید ترقیات سے نوازے۔ (18/محرم 1434ھ)
حضرت مولانا برکت اللہ عبدالقادر صاحب مدظلہ العالی
استاذ فقہ وحدیث کلیہ ابراہیم لندن
آج مورخہ 15/دسمبر 2012ء م یکم صفر المظفر 1434ھ المعہد العالی زیر نگرانی امارت شرعیہ میں دوروزہ قیام کا موقع ملا، اساتذہ اور طلبہ اور انتظامیہ سے کئی نشستیں رہیں، اولا ہمیں عمارت کی ظاہری سادگی اور اندرونی خوب کاری اس کے ظاہری حسن وجمال کی مظہر نظر آئی اور بہت پسند آئی اور قابل ستائش وتقلید محسوس ہوئی۔ثانیا اساتذہ کی مستعدی اور اخلاص کے ساتھ زیر تربیت طلبہ کی لگن دیکھنے میں آئی، تعلیم وتربیت اور پیشہ وارانہ ٹریننگ بھی خوب محسوس ہوئی، لکچر اور طلبہ سے ربط واتصال میں بھی بہت خوب اور خوش گوار تجربہ رہا۔یہ معہد امت مسلمہ کے ایک فرض کفایہ کی نہایت شان سے سبکدوشی کررہا ہے۔
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مد ظلہ العالی
بانی وناظم المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد،جنرل سکریٹری اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا
دینی مدارس کے فضلاء کی مزید تربیت کے سلسلہ میں غالبا سب سے پہلے ہندوستان میں جس مستقل ادارہ کی داغ بیل ڈالی گئی، وہ ‘‘ المعہد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء’’ ہے، حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ کا احساس تھا کہ ایک مستقل ادارہ تربیت قضاء کا ہونا چاہئے اور انہوں نے اس ادارہ کو قائم فرمایا، بحمداللہ اول دن سے یہ ادارہ اپنے مقصد میں کامیاب ہے اور ملک وبیرون ملک اس کا فیض پھیل رہا ہے۔ … تعلیمی وتربیتی اور انتظامی اعتبار سے اس نے مزید ترقی کا سفر طے کیا ہے۔(16/ربیع الثانی 1434ھ)
جناب اعجاز احمد اسلم صاحب
معاون قیم جماعت اسلامی ہند، دہلی
المعہد العالی میں حاضری میرے لئے باعث اعزاز وسعادت ہے، … اس ادارہ میں قضاء وافتاء کی تعلیم اور قضاۃ ومفتیان کی تیاری کے ذریعہ ایک نہایت مفید خدمت انجام دی جارہی ہے، آج ہندوستان کے سترہ اٹھارہ کروڑ مسلمان اپنے باہمی تنازعات کو لے کر عدالتوں کے چکر لگانے اور دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئے ہیں اسلامی نظام عدالت کا احیاء ہمارے بہت سارے مسائل کو حل کرے گا۔ (13/11/2012)